۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا رضی زیدی

حوزہ/ دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع کم ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا رضی زیدی پھندیڑوی نے اسلام کا معاشی نظام اور انسانی زندگی میں خوشحالیاں کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قدیم زمانے میں ضرورتیں مختصر اور سادہ ہوا کرتی تھیں، لیکن تہذیب و تمد ن کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور تبدیلی پیدا ہوتی گئی۔ بنیادی طور پر ہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے مکان درکار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کو بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آرام و آسائش پہنچاتی ہیں اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ مثلا صوفہ، ٹیلی ویژن فریج، ایر کنڈیشنز، موٹر سائیکل اور کار وغیرہ ہیں۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کرنے کے لیے انسان محنت کرتا ہے اور دولت کماتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں، مزدور کارخانوں میں، کلرک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں۔ غرض ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، دھوبی اور نائی ہر شخص اپنا کام کر رہا ہے تاکہ دولت حاصل کرکے ضرورت کی اشیاء حاصل کرسکے۔ انسان کی اس جدوجہد کا اور اس کی کوششوں کا تعلق معاشیات سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع کم ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔

مزید کہا کہ حاجات کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باعث دنیا کی بیشتر آبادی مسائل سے دوچار ہے۔ مثلا غربت، جہالت، فساد،بے رحمی،بیماری، قحط، بے روزگاری اور افراط زر وغیرہ ہیں۔ چنانچہ معاشی ماہرین ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں، ایسی تجویزیں پیش کرتے ہیں جس سے ملک میں اشیاء کی پیداوار بڑھے، روزگار ملے اور لوگوں میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، خوشحالی کا معیار بلند ہو اور ان کی ضرورتیں احسن طریقہ سے پوری ہوں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشیات کے جدید اصولوں اور نظریات سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ تاکہ اشیاء کی پیداوار بڑھے، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگوں کو ضرورت کی اشیاء ملیں اور معاشرہ خوشحالی کی طرف سفرکرے۔

انکا کہنا تھا کہ انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام بنایا جائے کہ کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریات زندگی کے پہچانے کا انتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپنی شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپنی لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔
معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کوکہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بغیرکسی قید سن وجنس کے کم از کم اپنا سامان حیات ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طورپر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک ،لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور یہی ایک اسلامی معاشرے کا مقصد ہے۔

دنیا میں دو معاشی نظام ہیں:

ایک سرمایہ دارانہ نظام معاشیات دوسرے اسلامی نظام معاشیات

سرمایہ دارانہ نظام معاشیات :

سرمایہ دارانہ نظام: ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش خصوصی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہےیعنی کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کے بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں خصوصی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا اضافہ ہوتا ہے اور ثروتمند ثروتمند تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں اور وہ متبادل نظام ہی اسلامی نظام ہے ۔

اسلامی نظام معاشیات :

اسلامی نظام معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے مثلاً بینک کاری کو اسلامی بنیادوں میں کیسے ڈھالا جاسکتا ہے یا موجودہ نظام ِسود کو کیسے تبدیل کیا جائے جس سے سود کے بغیر ادارے، کاروبار اور معیشت چلتی رہے۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف(یوزر) یا پیداکار(مینوفیکچر) اسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور نیتوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے نظریہ سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے؛ معیشت کے موضوع کو مسلم معاشروں میں زیر بحث نہیں لایا جاتا اور نہ ہی اس پر گفتگو کی جاتی ہے کہ کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام بھی ہے ۔ اسلام انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی تصور دیتا ہے؟ اس وقت دنیا میں اسلام کا معاشی نظام عملی طور پر دکھاِئی نہیں دیتا ۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن نظام اور سسٹم کے حوالے سے سرمایہ داری کو اپنی ترقی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت قوم ذلیل و پست کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ افلاس نے ہمارے معاشرے پر ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور پھر اوپر سے ایک اور ظلم یہ ہے کہ اسلام اور مذہب کے نمائندے غربت و افلاس کو تقدیر کا لکھا ثابت کر کے ہمیں اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام کی پیدا کردہ خرابیوں کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ بنیادی طور پر اگر غور کیا جائے کہ اسلام کا منشاء کیا ہے ؟ اسلام چاہتا کیا ہے ؟ دین اسلام چونکہ انسانی فطرت کا ترجمان ہے تو انسان کی زندگی کے دو رُخ ہیں جس سے جنم لینے والی انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں ۔ دوسرا اس کا روحانی اور اخلاقی رخ ہے ۔ اب انسان کی اخلاقی زندگی کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کی معاشی ضروریات کو پورا نہ کر لیا جائے ۔ اس حوالے سے معیشت انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے معاشی نظام ہم کیوں قائم کر تے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وسائل دولت اس دنیا میں پیدا کر دئیے ہیں ۔ اب معاشی نظام قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو وسائل پیدا فرمائے ہیں اس سے استفادہ کا ایک ایسا نظام بنایا جائے کہ جس سے انسانی احتیاجات کی تکمیل ہو اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نظام اسلامی قائم ہو کیونکہ اس نظام میں انسان کی سہولت ، حق اور نقصان سے بچنےکا خیال رکھا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر، امیرتر ؛ فقیر، فقیر تر ہوتا چلاجاتا ہے اور اسلام اس کو ہرگزپسند نہیں کرتا۔اسلام انسانی زندگی میں خوشیاں دیکھنا چاہتا ہے ۔والحمد للہ رب العالمین


تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Noor Ali usma pur amroha IN 10:15 - 2022/01/09
    0 0
    Zabar dast malomat uor zamane ki zarorat achi khidmat he hoze ki
  • Husain naqvi IN 12:56 - 2022/01/11
    0 0
    Jazakallah bohut acha bayan he